چینی وزیر خارجہ چھن کانگ کی پریس کانفرنس میں روشن چینی سفارت کاری کی عکاسی

ہر سال چین کے دو اجلاسوں کے دوران منعقدہ چینی وزیر خارجہ کی پریس کانفرنس مقبول ترین پریس کانفرنسز میں سے ایک ہے۔

سات مارچ کو چین کی چودہویں قومی عوامی کانگریس کے پہلے اجلاس میں چین کی خارجہ پالیسی اور بیرونی تعلقات کے موضوع پر چینی وزیر خارجہ چھن کانگ کی پریس کانفرنس کا اہتمام کیا گیا جو نہ صرف کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کی بیسویں قومی کانگریس کے بعد چینی وزیر خارجہ کی پہلی پریس کانفرنس ہے بلکہ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد، چو این لائی کے بعد چین کے جوان ترین وزیر خارجہ کی پہلی پریس کانفرنس بھی ہے۔

تقریباً دو گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس  پریس کانفرنس میں چھن کانگ نے چینی اور غیر ملکی میڈیا کے چودہ سوالات کے جوابات دئیے، جن میں چین-امریکہ تعلقات اور روس-یوکرین تنازعے سمیت دیگر اہم معاملات شامل ہیں۔اس پریس کانفرنس نے لوگوں کو جس حوالے سے متاثر کیا ہے، وہ یہ ہے کہ چین کے پیش کردہ امن، ترقی اور مشترکہ کامیابی پر مبنی نئے طرز کے بین الاقوامی تعلقات کے قیام کے تصور اور امریکہ کے زیر عمل بالادستی اور سرد جنگ کی ذہنیت کی پرانی سوچ کے درمیان آسمان و زمین کا فرق پایا جاتا ہے۔

چینی سفارت کاری کے حوالے سے چھن کانگ نے کہا کہ چین ہمیشہ عالمی امن کے تحفظ اور مشترکہ ترقی کی جستجو پر مبنی خارجہ پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ہر قسم کی بالادستی اور طاقت کی سیاست کی مخالفت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ چین پارٹنر شپ کی بنیاد پر تمام ممالک کے ساتھ اپنے دوستانہ تعاون کو فروغ دیتے ہو ئے نئے طرز کے بین الاقوامی تعلقات تشکیل دینے کا خواہاں ہے۔

چھن کانگ کا کہنا تھا کہ چین کھلے پن اور ترقی کو اپنے اہداف قرار دیتے ہو ئے اپنی ترقی سے دنیا کو نئے مواقع فراہم کرنے کے لئے تیار ہے اور کثیرالجہتی کے ذریعے بنی نوع انسان کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر نیز عالمی حکمرانی کو مزید معقول اور منصفانہ بنانے کو آگے بڑھانے کی کوشش کرے گا۔

انہوں نے کہا کہ چین کی سفارتکاری چین کے ترقیاتی تصور کی وسعت ہے اور اس تصور کی چینی جدید کاری میں عکاسی بھی ہوتی ہے۔ چھن کانگ نے کہا کہ ایک عشاریہ چار ارب آبادی کے ملک کا مجموعی طور پر جدید کاری میں داخلہ بنی نوع انسان کی تاریخ میں معجزہ ہو گا۔

چینی جدید کاری نے ” جدیدکاری اور مغربیت لازم و ملزوم ” کے افسانے کو ختم کرتے ہو ئے دنیا کے دیگر ممالک بلخصوص ترقی پذیر ممالک کو اہم اشارہ بھی فراہم کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ چینی جدید کاری تمام لوگوں کی مشترکہ خوشحالی کے لئے جدید کاری ہے جس کا حصول نہ جنگ سے، نہ نوآبادیت اور نہ ہی لوٹ مار سے ہوگا اور یہ مغربی انداز کی جدید کاری سے مختلف نیا راستہ ہے۔

چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ چین کی پُرامن ترقی کے تصور نے سنگین چیلنجز سے دو چار دنیا کو چینی دانش اور چینی حل فراہم کیا ہے۔ روس-یوکرین تنازع کے حوالے سے چھن کانگ نے کہا کہ امن اور جنگ کے درمیان امن کا انتخاب ہے، گفتگو اور پابندیوں کے درمیان گفتگو کا انتخاب ہے اور ہوا دینے اور ٹھنڈا کر نے کے مقابلے میں ٹھنڈا کر نے کا انتخاب ہے۔

انہوں نے کہا کہ تصادم، پابندیوں اور دباؤ سے مسئلے کو حل نہیں کیا جا سکتا۔ چینی وزیر خارجہ نے کہا کہ اب ٹھنڈے دماغ، عقل اور بات چیت کی ضرورت ہے اور امن عمل کو جلد از جلد شروع کیا جانا چاہیئے۔ تمام فریقین کی سکیورٹی کے حوالے سے خدشات کا احترام کرنا ہو گا تاکہ یورپ میں پائیدار امن و امان قائم ہو سکے۔

کچھ ممالک کی جانب سے سلامتی و ترقی کے شعبے میں پریشانی کے بارے میں چھن کانگ نے کہا کہ چین اس بات کی حمایت کرتا ہے کہ ہم مل کر مشکلات کا سامنا کرتے ہو ئے سلامتی اور ترقی کو یقینی بنائیں اور خطے کے ہم نصیب معاشرے کی تعمیر کے لئے کوشش کریں۔

دوسری طرف بالادستی، یک طرفہ پسندی، دھڑوں کے تصادم اور سرد جنگ کی ذہنیت وائرس کی طرح امریکی سفارت کاری کے خون میں شامل ہو گئے ہے اور یہاں تک کہ انہیں اپنی نام نہاد طاقت سمجھا جاتا ہے۔ کئی سال سے امریکہ دنیا کے مختلف علاقوں میں تصادم کو ہوا دینے میں مصروف عمل ہے اور عراق، شام، افعانستان، لیبیا اور آج کے یوکرین زندہ مثال ہیں۔

امریکہ ایک بڑے ملک کے طور پر اعتماد اور غیر جانبداری کھو بیٹھا ہے اور  اپنے اندورنی اختلافات بھی حل نہیں کر پا رہا ہے لہذا وہ خفگی چھپانے کے لیے اپنے مسائل دوسروں تک متنقل کر نے پر مجبور ہو گیا ہے۔ پرامن ترقی کرنے والے چین کے لئے امریکہ کے نام نہاد مقابلے کے دعوی کے پیچھے کار فرما سوچ دراصل اس کی  ہمہ گیر دباؤ کی ذہنیت اور ہار جیت کا کھیل ہیں۔

بقول چھن کانگ، امریکہ نے بارہا کہا ہے کہ ضوابط کی پاسداری کرنا ہے لیکن امریکہ خّود ایسا کر نے سے قاصر ہے، یہ ایسا ہی کہ جیسا اولمپک کی دوڑ میں شریک کھلاڑی اپنی رفتار بڑھانے کے بجائے دوسروں کو گرانے کے راستے تلاش کر رہا ہو، حتیٰ کہ دوسرے کو معذور ہی کیوں نہ بنا دیا جائے۔

یہ سوچ منصفانہ مقابلے کے بجائے بدنیتی پر مبنی محاذ آرائی کو ظاہر کرتی ہے۔ ایک طرف مشترکہ کامیابیوں پر مبنی کھلا تعاون جبکہ دوسری طرف بدنیتی پر مبنی ہار جیت کا کھیل، یقین ہے کہ تمام ممالک اس کا صحیح اندازہ لگا پائیں گے۔ انصاف میں شاید تاخیر ہو سکتی ہے لیکن آخرکار یہ ہو کر ہی رہتا ہے۔ دوسروں  پر دباؤ  ڈالنے سے امریکہ دوبارہ عظیم نہیں ہوگا اور نہ ہی چین کی مزید ترقی رکے گی۔

یہ خبر پڑھیئے

شہنشاہ جذبات محمد علی کو دنیا سے رخصت ہوئے 17 سال گزر گئے

منفرد انداز اداکاری سے شہنشاہ جذبات کا لقب پانے والے اداکار محمد علی کو دنیا …