امریکہ کی جانب سے 29 سے 30 مارچ تک دوسرے “ڈیمو کریسی سمٹ” کی میزبانی کی جائے گی۔
کوئنسی انسٹی ٹیوٹ کے آن لائن میگزین نے حال ہی میں ایک مضمون شائع کیا ہے جس میں نشاندہی کی گئی ہے کہ امریکہ کو اپنی بیان بازی سے دنیا کو مخالف کیمپوں میں تقسیم نہیں کرنا چاہیئے۔ ایک پاکستانی اسکالر نے تنقید کر تے ہو ئے کہا ہے کہ “ڈیموکریسی سمٹ” دنیا کو متحد کر نے کے لیے نہیں بلکہ دنیا کو تقسیم کرنے کے لیے ہے اور امریکہ نے جمہوریت کو اپنے مفاد کے لیے ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کیا ہے۔
اس نام نہاد سربراہی اجلاس کا خلاصہ امریکی طرز کے معیارات کے مطابق “جمہوری اور غیر جمہوری کیمپوں” کو تقسیم کرنا ہے، یعنیٰ امریکی بالادستی کو برقرار رکھنا اور جمہوریت کے نام پر نام نہاد “منحرفین” پر دباؤ ڈالنا ہے۔ کوئی ملک جمہوری ہے یا نہیں، عوام اس حوالے سے فیصلہ کر نے میں حق بجانب ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس اور یونیورسٹی آف شکاگو کے نیشنل سینٹر فار پبلک اوپینین ریسرچ کی جانب سے اکتوبر میں کیے گئے ایک سروے کے مطابق صرف 9 فیصد امریکی بالغوں کا ماننا ہے کہ امریکی جمہوریت اچھی طرح کام کر رہی ہے۔ امریکن یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر جیمز گولڈ گیئر نے کہا کہ امریکہ اپنی ساکھ کھو چکا ہے اور امریکی حکومت کو ملک میں ناانصافی اور عدم مساوات پر توجہ مرکوز کر تے ہو ئے “گھریلو جمہوریت” کا سربراہی اجلاس منعقد کرنا چاہیئے۔
جمہوریت تمام بنی نوع انسان کی مشترکہ قدر ہے اور امریکہ کو جمہوریت کی تعریف اور فیصلہ کرنے کے حق پر اجارہ داری کا کوئی حق نہیں ہے۔ عالمی بحران کو حل کرنے کے لیے یکجہتی اور تعاون کی کانفرنس کی ضرورت ہے نہ کہ “ڈیموکریسی سمٹ” کی جس سے محاذ آرائی کو ہوا ملے۔