منفرد، نغمہ نگار، اسکرپٹ رائٹر اور مکالمہ نگار مسرور انور کو مداحوں سے بچھڑے تیئس برس بیت گئے۔
مسرور انور 5 جنوری 1944ء کو شملہ میں پیدا ہوئے، 1962ء میں ا نہوں نے اپنی پہلی فلم ‘بنجارن کے لئے گیت لکھے تاہم انہیں اصل شہرت وحید مراد کی فلم ‘ہیرا اور پتھر کے گیتوں سے ملی جس کے بعد مسرور انور، احمد رشدی اور سہیل رعنا کی ایک ٹیم سامنے آئی جس نے متعدد سپر ہٹ گیتوں کو تخلیق کیا۔ 1965ء کی جنگ کے موقع پر مسرور انور کے ولولہ انگیز گیتوں نے پوری قوم کا خون گرما دیا، مہدی حسن کی آواز میں اپنی جاں نذر کروں جیسا گیت تخلیق ہوا تو سوہنی دھرتی جیسے ملی نغمے کو کون بھول سکتا ہے۔
مسرور انور کی زندگی میں 1966ء میں ریلیز ہونے والی فلم ‘ارمان کو بہت اہمیت حاصل ہے جس کا ہر گیت سپر ہٹ ثابت ہوا، جن میں اکیلے نہ جانا ہمیں چھوڑ کر تم یا کوکو کورینہ جیسے گیتوں کو کون بھول سکتا ہے۔
تاہم فلم انڈسٹری کے زوال کے بعد وہ آہستہ آہستہ پیچھے منظر سے غائب ہونے لگے تاہم کئی فلموں میں انھوں نے اپنے فن کا جادو جگایا، جن میں فلم مشکل کا گیت دل ہوگیا ہے تیرا دیوانہ بہت ہٹ ہوا۔ دوستوں میں قہقہے اور مسکراہٹیں بانٹنے والے منفرد شاعر، نغمہ نگار، سکرپٹ رائٹر مکالمہ نگار مسرور انور یکم اپریل 1996ء کو مختصر علالت کے بعد لاہور میں انتقال کرگئے۔