اردو ادب کے قادر الکلام اور دلوں کو چھو لینے والی شاعری کے خالق محسن نقوی کی آج 72ویں سالگرہ منائی جا رہی ہے۔
محسن نقوی پانچ مئی 1947 کو ڈیرہ غازی خان میں پیدا ہوئے۔ ان کا مکمل نام سید غلام عباس نقوی تھا شعر کہنے کے لئے محسن بطور تخلص استعمال کرتے تھے لہذا بحیثیت شاعر محسن نقوی کے نام سے مشہور ہوئے۔ ان کی شاعری کا محور معاشرہ، انسانی نفسیات، رویے، واقعہ کربلا اور دنیا میں ازل سے جاری معرکہ حق و باطل ہے۔
سرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بارود اگلتے رہے اخبار کے بیچ
ان کے کئی مجموعہ کلام شائع ہو چکے ہیں جن میں بندِ قبا، برگِ صحرا، ریزہ حرف، عذابِ دید، طلوعِ اشک، رختِ شب، خیمہ جاں، موجِ ادراک اور فراتِ فکر زیادہ مقبول ہیں۔
غمِ حسین میں اک اشک کی ضرورت ہے
پھر اپنی آنکھ کو، کوثر کا جام کہنا ہے
لاہورمیں قیام کے دوران محسن نقوی اک خطبیب کے روپ میں سامنے آئے۔ مجالس میں ذکرِاہلبیت اور واقعاتِ کربلا کے ساتھ ساتھ اہل بیتِ اطہار کی شان میں کی گئی شاعری بیان کیا کرتے تھے۔ اردو ادب کے اس دمکتے چراغ کو 15 جنوری 1996 کو مون مارکیٹ لاہور میں اپنے دفتر کے باہر دہشت گردوں کی فائرنگ سے بجھا دیا گیا تھا تاہم اس کی روشنی ان کی شاعری کی صورت میں ہمیشہ زندہ رہے گی۔
یہ جاں گنوانے کی رت یونہی رائیگاں نہ جائے
سرسناں، کوئی سرسجا! اداس لوگو