چینی امور کے ماہر برطانیہ کے مشہور دانشور اور کیمبرج یونیورسٹی کے صف اول کے محقق مارٹن جیکس کا مضمون حالیہ دنوں میں شائع ہوا۔
اپنے مضمون میں انہوں نے کہا ہے کہ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کو چین کے ساتھ تعلقات کے موجودہ طریقہ کار کو بدلنا ہوگا ۔امریکہ کو اپنے آپ کو نمر ون ملک نہیں سمجھنا چاہیے۔ امریکہ کو نئی دنیا کو اپنانے کی کوشش کرنی چاہیئے اور طاقت کے لحاظ سے اپنے برابر ہونے والے چین کو قبول کرنا چاہیئے۔ تاکہ چین کے ساتھ تعاون یا مقابلہ کرنے کے لیے نئے ذرائع کا تعین کیا جاسکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ دنیا میں صرف مغربی ممالک کا نطریہ نہیں چل سکتا۔ دنیا میں نہ صرف چین میں نمایاں تبدیلیاں آئی ہیں،بلکہ بہت سے ترقی پزیر ممالک کی تاریخ، سیاست اور ثقافت مغربی ممالک سے مختلف ہیں۔ ان حقائق کے پیش نظر مغربی ممالک کو یہ کوشش کرنی چاہیئے کہ مغربی ممالک سے مختلف ہونے والی چین کی خصوصیات کو سمجھا جائے ۔
اس کے علاوہ مارٹن جیکس نے چین اور مغربی ممالک کے درمیان تہذیب و تمدن ، نظام ،ثقافت اور فلسفہ سمیت چار اختلافات پیش کئے ہیں۔ انہوں نے نشاندہی کی کہ ایک ابھرتے ہوئے اور دنیا کے بڑے ملک کی حیثیت سے چین کئی خصوصیات کا حامل ملک ہے۔ ایک تو چین کا جی ڈی پی دو ہزار تیس یا دو ہزار پنتیس تک دنیا کی کل مالیت کا ایک تہائی حصہ بن جائے گا۔ اور چین کی اقتصادی طاقت امریکہ اور یورپ کی مجموعی اقتصادی طاقت سے بھی زیادہ ہوگی۔ دوسرا چین اور دیگر ترقی پزیر ممالک کے درمیان اچھے تعلقات ہیں۔ تیسرا دی بیلٹ اینڈ روڈ کی ترقی کی وجہ سے مستقبل میں عالمی انتظام و انصرام کے طریقہ کار میں نمایاں تبدیلیاں آئیں گی۔ لیکن اس وقت امریکہ دی بیلٹ اینڈ روڈ میں حصہ نہ لینے کا رویہ اپنائے ہوئے ہے۔ یہ رویہ درست نہیں ہے۔آخر میں مارٹن جیکس نے کہا کہ اس وقت چین کی تخلیقات کی صلاحیت زبردست ہے اور اس سلسلے میں چین ایک بڑی طاقت بن رہا ہے۔ چین کی ابھرتی ہوئی معیشت سے امریکہ کو آنے والے دنوں میں بڑے چیلنجوں کا سامنا کرنا ہوگا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے اپنایا جانے والا تحفظ پسندی کا طریقہ غلط ہے۔امریکہ کو حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے اور امریکہ کے صنعتی و کاروباری اداروں کو ترقی کی جانب گامزن چین کی اقتصادی ترقی کے عمل میں حصہ لینا چاہیے اور چین سے سیکھنا چاہیے جو بڑی اہمیت کا حامل ہے۔