مختلف تحقیقات سے یہ بات پتہ چلی ہے ہے کہ بچوں کو ایک وقت میں سب کے سب نہیں بلکہ چند کھلونے کھیلنے کو دیں۔ پھر کچھ عرصے بعد دیگر کھلونوں کو باہر نکالیں اور جو باہر کھلونیں ہیں انہیں چھپا کر رکھ دیں، تاکہ بچے بور نہ ہوں اور اس عمل کو دہراتے رہیں۔
اس عمل کے 2 بڑے فائدے ہیں۔ پہلا فائدہ یہ کہ اس طرح بچوں کو ہر بار نئے نئے کھلونوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع مل جائے گا اور دوسرا فائدہ کچھ الگ ہے اور وہ یہ کہ اس طرح بچوں کو ذہنی و جسمانی طور پر بھی فائدہ پہنچتا ہے۔ یونیورسٹی آف ٹولیڈو کے محققین نے 18 سے 30 ماہ کی عمر کے 36 بچوں کا مشاہدہ کیا۔ بچوں کے 2 گروپس بنائے گئے۔ کھلونوں کے ساتھ کھیلنے والے دونوں گروپس کے ہر بچے کا ایک گھنٹے پر مشتمل 2 سیشنز میں مشاہدہ کیا گیا جو اپنے طور پر کھلونوں سے کھیل رہا تھا۔
بچوں کے ایک گروپ کو یونیورسٹی اور دوسرے گروپ کو گھر پر رکھا گیا۔ بچوں کے ایک گروپ کو کھیلنے کے لیے 16 کھلونے جبکہ دوسرے گروپ کو 4 کھلونے دیے گئے۔ محققین نے پایا کہ جس گروپ کو 4 کھلونے دیے گئے تھے اس کے بچوں نے نہ صرف کھلونوں کے ساتھ بھرپور طریقے اور مختلف انداز میں کھیلا بلکہ کم کھلونے ہونے کی وجہ سے انہیں چوٹ یا نقصان بھی کم ہوا۔
انہوں نے یہ نتیجہ اخذا کیا کہ بچوں کو اگر کم کھلونے فراہم کیے جائیں تو وہ ایک کھلونے سے طویل وقت تک کھیلنے میں مصروف رہتے ہیں۔ اسی طرح وہ نئی نئی چیزیں دریافت کرنے پر دھیان مرکوز کیے رکھتے ہیں اور ان میں زیادہ تخلیقی انداز میں کھیلنے کا رجحان بھی پیدا ہوتا ہے۔
اگر بات کی جائے 16 کھلونوں والے بچوں کے گروپ کی تو یہ پایا گیا کہ بچے ایک کو چھوڑ کر دوسرے کھلونے سے کھیلتے رہے۔ وہ ایک کھلونے سے کچھ کھیلتے تو دوسرا کھلونا ان کا دھیان اپنی طرف کھینچ لیتا۔ جبکہ 4 کھلونوں والے گروپ میں بچے ایک کھلونے کے ساتھ دیر تک کھیلتے رہے۔
تحقیق کا خلاصہ کچھ اس طرح کیا جاسکتا ہے کہ ’نئی چیزوں کو دریافت کرنے کا عمل بچوں کے جسم کے دونوں حصوں میں باہمی تعلق، چھوٹے مسلز میں تال میل جیسی جسمانی صلاحیتوں کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ مسئلے کو حل کیسے کرنا ہے.