امریکہ اپنے اندرونی معاشی مسائل اور تجارتی عدم توازن سے نمٹنے کے لئے چین کو قربانی کو بکرا بنا رہا ہے۔ امریکہ چین کی اعلی ٹیکنالوجی کی حامل کمپنیوں پر پابندیوں اور چینی مصنوعات پر محصولات میں اضافے کو چین پر دباؤ بڑھانے کے لئے ایک ہتھیار کے طور پراستعمال کر رہا ہے۔ امریکہ چین پرغیرضروری دباؤ بڑھا کر اپنی مرضی، شرائط اور خواہشات کے مطابق تجارتی معاہدہ کرنا چاہتا ہے۔
امریکہ کی یکطرفہ پسندی اور معاشی تحفظ پسندی کے اس رویے نے عالمی برادری میں بے چینی کی ایک لہر دوڑا دی ہے۔ عالمی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ دنیا کی دو بڑی عالمی معیشتوں کے درمیان جاری یہ کشمکش پہلے سے سست روی کا شکار عالمی معیشت کو مزید نقصان پہنچائے گی۔ یہ اکیسویں صدی ہے۔ اب وقت بدل چکا ہے۔ چین کوئی موم کی گڑیا نہیں ہےجس سے اپنی مرضی کی “معاشی ڈیل” حاصل کی جا سکے۔ آزادی کے ستر سال بعد خصوصاً اصلاحات اور کھلے پن کے چالیس برسوں میں چین نے اس طرح کے دباؤ کا مقابلہ کرنے کا ہنر سیکھ لیا ہے۔ چین جانتا ہے کہ کس طرح برابری کی بنیاد پر بات چیت کو آگے بڑھانا ہے اور کس طرح اس نیتجے پر پہنچنا ہے جو سب کے مفاد میں ہو۔ واشنگٹن میں بیٹھے ہوئے گرم دماغ لوگوں کو یہ جان لینا چاہیے کہ وہ چین پر جس قدر زیادہ دباؤ بڑھائیں گے چین اس قدر تیزی کے ساتھ تکنیکی خود انحصاری کی طرف بڑھے گا۔
چین امریکہ کے ساتھ کسی بھی لڑائی میں الجھنا نہیں چاہتا، چین نے ہمیشہ یہ خواہش کی ہے کہ امریکہ ہٹ دھرمی کا رویہ چھوڑتے ہوئے آگے بڑھے تاکہ کسی ایسے معاہدے پر پہنچا جاسکے جو دونوں ملکوں کے مفادات کے مطابق ہو۔
تاریخ شاہد ہے کہ چین اپنے وعدوں سے نہیں پھرا لیکن گذشتہ اقتصادی و تجارتی مذاکرات کے گیارہ ادوار کے دوران امریکہ مسلسل اپنا موقف بدلتا رہا ہے۔ حتی کہ گذشتہ سال مئی میں دونوں ممالک تجارتی معاہدے کی کامیابی کا مشترکہ اعلامیہ جاری کرنے جا رہے تھے کہ امریکہ پھر اپنے موقف سے بدل گیا۔ رواں ماہ مذاکرات کے گیارہویں دور سے ایک روز قبل امریکہ نے 200 بلین امریکی ڈالرز کی چینی مصنوعات پر پہلے سے عائد دس فیصد ڈیوٹی کو بڑھا کر پچیس فیصد کردیا، لیکن چینی وفد پھر بھی مذاکرات کے لئے امریکہ گیا۔
چین امریکہ کی نیت سے آگاہ ہے اور کسی بھی قسم کی صورت حال کا مقابلہ کرنے کے لئے تیار ہے۔ سخت رویہ رکھنے والے امریکی حکام کو سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کرنا ہوگا اور چین کے ساتھ مذاکرات میں اخلاص سے شریک ہونا ہوگا۔